Famous Urdu Novels

Famous Urdu Novels
ABSCGD

Google Play

Get it on Google Play

Aazmaish article by Arfa Alvi

 

آزمائش

ابتدا ہے رب جلیل القدر کے نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے عرش تا فرش تک اپنی قدرت، وحدانیت، جاہ و جلال کی زندہ و جاوید مثالیں ثبت کیں۔ آسمان سے پانی برسایا زمین سے اناج اگایا، رات کو چاند اور ستاروں سے سجایا، دن کو سورج سے منور کیا۔ کہیں پہاڑ تو کہیں جنگلات بنائے تو کہیں مخمل جیسے بچھونے بچھائے تاکہ یہ فانی انسان آگاہ ہو جائے اور جان لیں اپنے خالق و مالک کی محبت و عظمت کو ۔

اللّٰہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد جب بنی نوع انسان کی تخلیق میں اضافہ کیا تو عام و خاص کے فرق کے لیے درجات بنا دیے تاکہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔ کسی کو علم کے ذریعے فضیلت بخشی، تو کسی کو عقل کے ذریعے ، کسی کو مال و ثروت عطا کیا تو کسی کو حسین و جمیل بنایا۔ کوئی صبر کرنے میں آگے نکل گیا تو کوئی شکر گزاری میں نمبر لے گیا۔ لیکن کامیاب وہی ٹھرا جس نے عاجزی و انکساری کا دامن تھامے رکھا اور دعا الہیٰ میں مشغول رہا۔

 

تو سوال یہ ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے سب کو کوئی نا کوئی خوبی عطا کی جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتی ہے تو کیا وجہ کے انسان روتا ہے اور مشکلات کا شکار ہے، بے چین ہے، تنگ دست ہے کوئی دنیا سے نالہ ہے اور کوئی اپنے آپ سے، کسی کو انسان سے شکوے ہیں تو کوئی براہ راست قادر مطلق سے شکوے شکایات کرنے میں مگن ہے۔

 

آخر کیوں ایسی کیا وجہ ہے کہ ہم انسان اشرف المخلوقات ہو کے بھی اتنے مایوس اور ناامید ہیں۔

وجہ صرف ایک ہی ہے پہچان 

ہاں جی ایسا ہی ہے ہمیں پہچان نہیں ہے، ہم مصیبت اور آزمائش کو پہچان نہیں پاتے۔ ہمارے اندر اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی پہچان نہیں ہے، مثلاً اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے آپ خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اچانک سے کوئی مشکل آ جاتی ہیں، انسان اپنی فانی عقل کے مطابق اسے سارٹ آؤٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے، اور اللّٰہ تعالیٰ سے شکوہ کناں ہونے لگتا ہے اور اس مشکل کو اپنے لیے مصیبت بنا لیتا ہے۔

ہم میں سے اکثریت کو مصیبت اور آزمائش میں فرق نہیں معلوم ہم ہر مشکل کو مصیبت یا سزا سمجھ لیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔

بعض مشکلات واقعتاً مصیبت اور سزا ہی ہوتی ہیں، لیکن بعض آزمائش ہوتی ہیں۔

آئیے پہلے آزمائش کی پہچان کرتے ہیں کہ آزمائش کیا ہے؟ یہ کیوں آتی ہے؟ کن پہ آتی ہے؟ اور کب آتی ہے ؟

آزمائش کیا ہے؟۔۔۔۔۔

لغوی معنی: جانچا جانا، پرکھا جانا، تجربے یا امتحان کے بعد معلوم ہونا۔

اصطلاحی معنی: اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کسی انسان کا جانچا جانا، پرکھا جانا، تجربے یا امتحان کے بعد معلوم ہونا۔

آزمائش کیوں آتی ہے؟۔۔۔۔

انسان کو مضبوط بنانے کے لیے ، اسکی روحانی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے، اپنے خالق حقیقی پر کامل ایمان و یقین کے لیے، شیطانی  خیالات کو شٹ اپ کال دینے کےلئے اچھے اور برے کی پہچان کے لیے آتی ہے۔ تاکہ انسان یہ جان لے ک اس کے بعد آنے والا وقت راحت واطمینان بھرا ہو گا۔

البقرۃ، 2 : 155

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں"

 

آزمائش کن پہ آتی ہے اور کب آتی ہے؟؟..

اللّٰہ تعالیٰ عزوجل کے نزدیک جو لوگ معتبر اور اعلیٰ وارفع مقام رکھتے ہیں اللّٰہ پاک انکو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ ان کو اس امتحان کے ذریعے آزما سکے، آیا وہ اس قابل ہو گئے ہیں یا نہیں۔

یہاں ایک بات سوچنے کی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعے ہی کیوں پہچانتے ہیں جبکہ اللّٰہ پاک تو قرآن مجید میں بار بار فرماتا ہے " السمیع العلیم" مطلب اللّٰہ تعالیٰ سب جانتا اور سنتا ہے، تو جب اللّٰہ سب جاننے اور سننے والا ہے تو آزمائش کیوں اللّٰہ پاک کو تو اس کے بنا ہی سب معلوم ہے تو پھر کیوں۔۔۔؟؟؟

کیونکہ اللّٰہ پاک اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو معتبر بنانا چاہتا ہے دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو مجھ سے محبت کرنے والے ایسے ہیں جو میرے لیے جھکتے ہیں مجھ سے مانگتے ہیں، مشکل میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے،حالات جیسے بھی ہو جائیں ان کے ایمان نہیں ڈگمگاتے ہمیشہ ثابت قدم رہتے ہیں۔ رضائے الٰہی کے متمنی رہتے ییں، احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں۔ تو دیکھ لو یہی ہیں وہ لوگ جن کا مقام باقیوں سے بلند ہے۔ (قرآن پاک میں کئی انبیاء حضرت آدم، نوح، ابرہیم اسماعیل ایوب نبی حضرت یقوب و یوسف، عیسیٰ موسیٰ جیسے کئی جلیل القدر انبیاء کی مشکلات صبر و استقامت کا ذکر ملتا ہے۔)

بلکل ویسے ہی جیسے اللّٰہ پاک ظالموں کو نشان عبرت بناتا ہے انکو مصیبت میں مبتلا کر کے۔ مصیبت زدہ لوگ اللّٰہ سے گلے شکوے کرتے ہیں مایوسی ناامیدی کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنی غلطیاں دوسروں پر ڈالتے ہیں الزام تراشی، حسد، بغض، کینہ، فساد، دولت کی ہوس، دنیا کی فکر آخرت سے لاپرواہی، خود غرضی، رشوت، لالچ، جھوٹ مکر وفریب، تکبر وغیرہ جیسی بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ تمام نشانیاں ہیں مصیبت زدہ لوگوں کی۔ ( شداد، نمرود، فرعون ، یزید لعنتی جیسوں کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔)

آئیے اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم مشکل وقت میں کن افعال کو سرانجام دیتے ہیں مصیبت زدہ والے یا آزمائش والے۔؟ ہمیں یہ پہچان کرنی ہے کہ مشکل کو آزمائش سمجھ کر اس میں سے نکلنا کیسے ہے اللّٰہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنا ہے اسکو پکارنا ہے کیونکہ وہی ہے جو ہماری پکار سنتا ہے۔

 قرآن مجید میں ہے۔

ہے کوئی مجھے پکارنے والا

تو خدارا مشکلات کو آزمائش کی بجائے مصیبت اور عذاب نا بنائیں بلکہ اسکو پہچانیے

امام علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "مشکل گھڑی میں اگر تم خدا کی جانب رجوع کرتے ہو تو وہ آزمائش ہے، جبکہ اگر اللّٰہ سے شکوے شکایات کرنے میں مگن ہو جاو تو وہ مصیبت ہے"

تو ہمیں مصائب کا حل قرآن و سنت کے مطابق اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ لگاؤ لگا کر اس کی رضا میں راضی رہ کر عاجزی و انکساری کا دامن تھام کر کرنا ہے تاکہ ہم اللّٰہ پاک کی نظر میں وہ مقام حاصل کر سکے  جس مقام پہ پہنچنے کہ بعد وہ اپنے نیک بندوں کی لسٹ میں فائنلاز کرتا ہے۔ دعا ہے کہ اللّٰہ پاک ہمیں اس پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے الہیٰ آمین ️🤲

طالب دعا: عرفع علوی

************

 

 

 

 

 

 

Share on Google Plus

About Imran Ali

    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment